میزان: ارمیلا شریش، مترجم خورشید عالم
’’دیدی کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘ ’’کون سی دیدی؟‘‘ ’’دوچاردیدیاں ہیں کیا؟‘‘ ’’میری تو دو دیدی ہیں نا۔‘‘ ’’بڑی دیدی، روہنی دیدی۔‘‘ ’’کیوں انھیں کیا ہوا؟ٹھیک ہی ہوں گی۔‘‘ ’’تم تو
’’دیدی کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘ ’’کون سی دیدی؟‘‘ ’’دوچاردیدیاں ہیں کیا؟‘‘ ’’میری تو دو دیدی ہیں نا۔‘‘ ’’بڑی دیدی، روہنی دیدی۔‘‘ ’’کیوں انھیں کیا ہوا؟ٹھیک ہی ہوں گی۔‘‘ ’’تم تو
مجھے سوئٹزرلینڈ جانے کا اتفاق ہوا۔ میرے والد بیمار تھے،ان کا علاج وہاں ہونا طے پایا تھا،اہل خانہ نے فیصلہ کیا کہ ان کی تیمار داری کے لیے میں
نواب یوسف علی خاں ناظم ریاست رام پور کے سربراہ بھی تھے اور کہنہ مشق شاعر بھی۔ آپ کے والد نواب محمد سعید بہادر اور والدہ فتح النسا بیگم تھیں۔
پریم بھکتی کے سمندر میں غرق میرا بائی بغاوت اور آزادی کا استعارہ تھی۔ نسائی احساس کی ایک حسین علامت ، عطوفت اور ایثار کا ایک رمز جس کے وجود
بنگال کی دنیائے شعرو ادب میں قیصر شمیم کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔ قیصر شمیم کا شمار بنگال کی ان اعلیٰ ہستیوں میں ہوتا ہے، جن کی بے لوث کوششوں
یومِ آئین کی مناسبت سے قومی اردو کونسل میں ‘ہندوستانی ریاستوں کا انضمام اور آئینِ ہند’ کے عنوان سے خصوصی لیکچر کا اہتمام آزادی کے بعد تقریباً چھ سو ریاستوں
عالم انسانیت کے وجود میں آنے کے بعد جب لوگوں نے کھانے کا مسئلہ حل کر لیا تو زندگی کے دوسرے مسائل نے تیزی سے سر ابھارنا شروع کیا
اردو کی تین مصرعی نظموں میں سب سے زیادہ مقبولیت ماہیا کو ملی، ثلاثی بھی زیرِ بحث رہی بعد میں تروینی معروف تو ہوئی لیکن اول الذکر دونوں صنفوں
اس کائنات میں سب سے متحرک اور فعال کوئی چیز ہے تو وہ تخلیقی عمل ہے۔قدرت نے اس کائنات کا نظام ہی تخلیقی عمل پر رکھا ہے۔ اگر ہم پوری
ممتاز قلمکارمدن لال منچندہ جو پچھلی 7 دہائیوں سے اردو، انگریزی اور ہندی تینوں زبانوں میں تصنیف و تالیف کا قابل ستائش کام کرتے آرہے تھے، اچانک ایک مئی 2021کو