تحریک آزادی اور اردو فکشن: مسرت
1857کی ناکام بغاوت نے ہندوستانیوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا اور انگریزوں نے مکمل طور پر ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ان حالات سے ادب بھی اچھوتانہیں
1857کی ناکام بغاوت نے ہندوستانیوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا اور انگریزوں نے مکمل طور پر ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ان حالات سے ادب بھی اچھوتانہیں
ایک وقت تھا کہ منٹو اردو کا سب سے بدنام اور فحش افسانہ نگارسمجھا جاتاتھا۔بدنام ہی نہیںسمجھا جاتا تھا بلکہ اسے بے ہودہ اور سنکی بھی کہا جاتا تھا۔اسی بدنامی
فیمینزم یعنی تانیثیت کو اس کے مروجہ اصطلاحی مفہوم اور نظری تحریکی تصور کے تناظر میں دیکھا جائے تو اردو میں تانیثی صحافت کا وجود ہی نہیں ہے۔ کیونکہ بہ
علوم وفنون کی قدیم میراث ہمارا عظیم سرمایہ ہے جن زبانوں میں قدیم علوم وفنون تصنیف و تالیف کیے گئے آج وہ زبانیں عملی طور پر موجود نہیں یا موجود
زمانہ ٔ قدیم سے ہی اردو غزل مقبول ترین صنف ِشاعری رہی ہے۔ اس کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی کی مثال اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے
تنویر احمد علوی کا شمار اردو کے معروف و مشہور محققین میں ہوتا ہے۔ان کی تحقیقی بصیرت اور محققانہ کاوشوں کو اردو ادب میں بڑی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا
ہندی شاعری کی روایت کافی پرانی ہے۔ چھند، دوہے، سورٹھے، چوپائی،سویے اور مُکتک وغیرہ ہندی کی مقبول و معروف اصناف ہیں۔ شعر گوئی کا خوبصورت اور ہر دلعزیز فن ہندی،عربی،ترکی،فارسی
علی گڑھ تحریک کے بانی سرسید احمد خان تھے، جبکہ ان کے رفقا میں مولانا حالی، مولانا شبلی، ڈپٹی نذیر احمد، محسن الملک اور آغا خان وغیرہ خاص طور
ہندوستان کی تحریک آزادی میں اردو زبان و ادب نے انتہائی اہم رول ادا کیا ہے۔ یاد رہے کہ زبان کا تعلق کسی مذہب یا کسی قوم سے نہیں ہوتا۔
ادبی اعتبار سے ہندوستان میں ایسے خطے بھی موجود ہیں جن پر نہ کبھی سحاب کی ایک بوند ٹپکی اور نہ جن کی طرف کبھی کوئی نہرِ شاداب بھٹکی۔ ایسے