مجاز اور عالم حسن وجمال: سہیل کاکوروی
مجاز لکھنوی یا مجازردولوی ڈرامائی انداز میں افق شاعری پر ابھرنے والا شاعر اور پھر اسی انداز میں ڈوبنے والا بھی جس کی ساری زندگی عشق کے لیے وقف اور
مجاز لکھنوی یا مجازردولوی ڈرامائی انداز میں افق شاعری پر ابھرنے والا شاعر اور پھر اسی انداز میں ڈوبنے والا بھی جس کی ساری زندگی عشق کے لیے وقف اور
موجودہ دور ماضی کی بہ نسبت بے انتہا تیز رفتار سائنسی ترقیوں کا دور ہے، اس زمانے کی ہر پل بدلتی ہوئی تکنیک اور دن بہ دن نت نئی ایجادات
پروفیسر ابن کنول جن کا اصل نام ناصر محمود کمال اور قلمی نام ابن کنول ہے،کی پیدائش 15اکتوبر 1857 کوضلع مراد آباد کے قصبہ بہجوئی میں ہوئی۔ان کے اجداد مغلیہ
پروفیسر ابن کنول جن کا اصل نام ناصر محمود کمال اور قلمی نام ابن کنول ہے،کی پیدائش 15اکتوبر 1857 کوضلع مراد آباد کے قصبہ بہجوئی میں ہوئی۔ان کے اجداد مغلیہ
ارد و کی جدید اصناف نثر میں ایک اہم صنف خاکہ نگاری بھی ہے۔بقول ابن کنول: ’’خاکہ نگاری بہت ہی نازک صنف ہے،شیشہ گری ہے۔ذرا سی لغزش سے خاکہ نگار
پروفیسر ابن کنول کے لیے ’تھے‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے لیکن اللہ کی مرضی کے آگے انسان بے بس ہے۔ ابن کنول کو خراج
ڈاکٹر فہمیدہ بیگم1982تا 1994فروغِ ا ردو کے سب سے بڑے سرکاری ادارے ’ترقی اردو بیورو‘دہلی، کی ڈائرکٹر اور 1994 تا 1996 قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی، کی ڈائرکٹرکے
کیف عظیم آبادی، اردو کے ایک قابل قدر شاعر ہیں۔ان کا شمار پختہ گو، قادر الکلام اور واضح فکری میلان رکھنے والے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ انھوں نے مختلف صنفوں
شاعر ہمارے معاشرے کا ایک حساس فرد ہوتا ہے۔ وہ دیگر لوگوں کے مقابلے میں اپنی ذات اور وجود کے علاوہ اپنے اطراف واکناف کی ہر چیز کو ایک مخصوص
عبدالمتین کی زندگی کاسفر 18مئی 1938سے 6جون 2022، اوران کا افسانوی سفر1952سے 2022 پر محیط ہے ۔ یعنی انھوںنے اپنی زندگی کے 84سال میں سے 70سال صنف افسانہ کی آراستگی