غالب کے غیرمتداول کلام سے تین اشعار اور ان کی تشریح – مضمون نگار: جمال عبد الواجد
چند غلط فہمیوں کی بنا پر غالب کا غیرمتداول کلام بدقسمتی سے عام طور پر غیرمعروف ہے۔ غالب کی شہرت اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے، تعجب ہے اس کے
چند غلط فہمیوں کی بنا پر غالب کا غیرمتداول کلام بدقسمتی سے عام طور پر غیرمعروف ہے۔ غالب کی شہرت اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے، تعجب ہے اس کے
ادب میں تنقید کو اگرچہ ثانوی حیثیت حاصل ہے، اس کے باوجود اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تنقید ہی معیاری تخلیق کے لیے راستہ ہموار
کائنات کی ہر شے فانی ہے۔ کائنات کی تمام مخلوقات میں باہمی ربط ہے، انسان، حیوان، شجر، حجر کے خدا نے جوڑے بنائے ہیں۔جس کے بغیر شے کا وجود
آج اکیسویں صدی کی ترقی یافتہ دنیا کے چمکتے دمکتے پُررونق بازار اور ان کی گہما گہمی دیکھ کر دلی سلطنت و مغلیہ عہد کے ان بازاروں کا تصور
اردو افسانوں میں خود کلامی کے عناصر ابتدا سے ہی ملتے ہیں۔ پریم چند نے اپنے کئی افسانوں میں اس تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کا
آزادی کے بعد جن معتبرافسانہ نگاروں نے پریم چند کی روایت کو آگے بڑھایا ہے اور دیہی زندگی کی تصویر کشی کی ہے ان میں خواجہ احمد عباس، قاضی
اردو فکشن کی ایک نوزائیدہ اور جدید صنفـــــــ ’ افسانچہ ‘ ہے۔ افسانچہ، کہانی کی مختصرترین اورجدیدترین صورت ہے۔ اسے ’ منی افسانہ ‘ اور ’منی کہانی‘ بھی
دہلی اور اس کے قرب وجوارمیں بولی جانے والی کھڑی بولی سے نکلنے والی زبان جس نے خالص ہندوستانی ماحول میں فروغ پایا اور جو ہر خاص و
امداد امام اثر کے مطابق شاعری رضائے الٰہی کی صحیح نقل ہے جو الفاظ با معنی کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ اگر تجزیہ کیا جائے تو ان کا
عموماً دنیا کی ہر بڑی شاعری میں شعرا نے عظیم شخصیتوں پر طبع آزمائی کی ہے۔ ہندوستان میں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم رام کی شخصیت اور رام