ڈراما ’انارکلی‘ اور فلم ’مغل اعظم‘ ایک تجزیاتی مطالعہ – مضمون نگار: افسانہ حیات
ڈراما انارکلی اور فلم مغلِ اعظم دونوں کاتانا بانا عشق کے روایتی قصے پر بنا گیا ہے، جس میں ایک ادب کی آغوش میں پناہ گزیں ہے تو دوسرا ہندی
ڈراما انارکلی اور فلم مغلِ اعظم دونوں کاتانا بانا عشق کے روایتی قصے پر بنا گیا ہے، جس میں ایک ادب کی آغوش میں پناہ گزیں ہے تو دوسرا ہندی
خانوادۂ حالی کو بہت امتیاز حاصل ہے ۔ اس میں خواجہ الطاف حسین حالی علوم و فنون و ادب کے سورج تھے اور دیگر افراد خانہ جن میں خواجہ
قبل مسیح کی چھٹی اور پانچویں صدیاں اس اعتبار سے بے حد اہم ہیں کہ ان میں کئی فلسفوں اور مذہبوں کے بانیان پیدا ہوئے جنھوں نے دنیا کوروشن
غالب ہماری زبان اور شاعری کا تہذیبی محاورہ ہے۔ جو اردو جانتا ہے غالب کو جانتا ہے اور جو اردو نہیں جانتا وہ بھی غالب کو جانتا ہے۔ اردو
اختر انصاری ترقی پسند تحریک سے مستقل طور پر وابستہ تو نہیں تھے، لیکن انھوں نے جس تسلسل و تواتُر کے ساتھ اس تحریک کے نظریات کو عام کرنے
اردو زبان کی تاریخ گواہ ہے کہ جہاں جہاں یہ زبان بولی اور سمجھی گئی۔ وہاں نہ صرف زبان کی سطح تک اس کا اثر پڑابلکہ گاؤں اور شہروں
’مشرقی پنجاب‘ سرزمینِ ہند کا وہ خطہ ہے جس نے اردو کے ارتقاوفروغ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔اردو سے اس علاقے کا رشتہ شروع سے ہی رہا ہے ۔اسی
میں پچھلے چالیس پینتالیس برسوں سے دہلی کی شعری اور ادبی زندگی کا مشاہدہ کررہاہوں۔ ایک طالب علم کے طور پراس شہرکے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں کو قریب
بلراج مینرا کا شمار دورجدید کے اہم اور منفرد افسانہ نگاروں میں کیا جاتا ہے۔مینرا ادبی صحافت کی تاریخ میں بھی ایک ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔رسالہ’شعور‘کی ادارت نے