عصری حسیت اور ساتویں دہائی کی اہم ہندی کہانیاں – مضمون نگار: فیضان حسن ضیائی
ساتویں دہائی کا عرصہ ہندی افسانوی ادب کا سنہرا دور تسلیم کیا جاتا ہے۔جہاں ایک طرف سماجی مسائل کی حکایت تھی تو دوسری جانب انسان کی ذات کا کرب
ساتویں دہائی کا عرصہ ہندی افسانوی ادب کا سنہرا دور تسلیم کیا جاتا ہے۔جہاں ایک طرف سماجی مسائل کی حکایت تھی تو دوسری جانب انسان کی ذات کا کرب
علامہ اقبال نے مرزا غالب کو بھی منظوم خراجِ تحسین پیش کیا ہے جن کا انتقال ان کی پیدائش سے 8 سال قبل ہوچکا تھا اور سوامی رام تیرتھ
اخترالایمان سے انور عظیم کی ملاقات گرچہ تاخیر سے ہوئی،لیکن جلد ہی گہری دوستی میں بدل گئی۔ انور عظیم اخترالایمان سے کئی سطحوں پر متاثر تھے۔اس کا پہلا سبب
پروفیسر حنیف نقوی (1936-2012) کا شمار عصر حاضر کے نامور محققین میں ہوتا ہے۔ مولانا امتیاز علی خاں عرشی، مالک رام، پروفیسر گیان چند، ڈاکٹر ابومحمد سحر اور رشید
قدیم زمانے میں علمِ نفسیات، فلسفے کی ایک شاخ کی حیثیت رکھتا تھا۔انیسویں صدی میں نفسیات پر اتنا کام ہوا کہ اس نے ایک علاحدہ علم کی حیثیت اختیار
ہندی شاعری کا باقاعدہ آغاز بھارتیندو ہرش چندر سے ہوتا ہے۔ ان کی شاعری کا زمانہ (1850-1900) تسلیم کیا جاتا ہے۔ انھیں جدید ہندی شاعری کا’بھیشم پتامہ‘ بھی کہا
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا میر تقی میر ’’…..میرے دونوں شانوں کے درمیان جو درد
جموں وکشمیر میں غزل گوئی کے آغاز کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن یہاں کی شاعرات کے حوالے سے بہت کم لکھا گیا ہے۔ یہاں کی اولین
حنیف کیفی کی شاعری نے جہاں لوگوں کے دلوں کو منور کیا وہیں ،ان کے کلام نے انکشاف ذات کا بھی عظیم فریضہ انجام دیا ۔ آپ کی غزلیں