اردو افسانے میں تقسیم ہند کے مسائل اور کرب – مضمون نگار: ساجد علی قادری
بر صغیر ہمیشہ سے دنیا کی نگاہ میں پرکشش اور پراسرار رہاہے۔ اس کشش نے کئی قوموں اور نسلوں کو یہاں بسنے پر نہ صرف مجبور کیا بلکہ انھوں
بر صغیر ہمیشہ سے دنیا کی نگاہ میں پرکشش اور پراسرار رہاہے۔ اس کشش نے کئی قوموں اور نسلوں کو یہاں بسنے پر نہ صرف مجبور کیا بلکہ انھوں
لوک گیت لوک ادب کی اہم شاخ ہے جس میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کی جاتی ہے۔ اس میں انسان کی پیدائش سے لے کر موت
الیاس احمد گدی نے 1968میں بغیر پاسپورٹ اور ویزا کے غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش(اس وقت کا مشرقی پاکستان) کا سفر کیا تھا۔ اس حیرت انگیز لیکن پُر خطر
اردو میں تحقیق کے معلمِ اول کہلانے کا شرف حافظ محمود شیرانی کو حاصل ہے۔ان کے لافانی تحقیقی کارنامے ناقابل فراموش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر محققین اور
چند غلط فہمیوں کی بنا پر غالب کا غیرمتداول کلام بدقسمتی سے عام طور پر غیرمعروف ہے۔ غالب کی شہرت اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے، تعجب ہے اس کے
ادب میں تنقید کو اگرچہ ثانوی حیثیت حاصل ہے، اس کے باوجود اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تنقید ہی معیاری تخلیق کے لیے راستہ ہموار
کائنات کی ہر شے فانی ہے۔ کائنات کی تمام مخلوقات میں باہمی ربط ہے، انسان، حیوان، شجر، حجر کے خدا نے جوڑے بنائے ہیں۔جس کے بغیر شے کا وجود
آج اکیسویں صدی کی ترقی یافتہ دنیا کے چمکتے دمکتے پُررونق بازار اور ان کی گہما گہمی دیکھ کر دلی سلطنت و مغلیہ عہد کے ان بازاروں کا تصور
اردو افسانوں میں خود کلامی کے عناصر ابتدا سے ہی ملتے ہیں۔ پریم چند نے اپنے کئی افسانوں میں اس تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کا
آزادی کے بعد جن معتبرافسانہ نگاروں نے پریم چند کی روایت کو آگے بڑھایا ہے اور دیہی زندگی کی تصویر کشی کی ہے ان میں خواجہ احمد عباس، قاضی